السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
(اسامہ بن لادن اسلامی دنیا میں ایک متنازعہ شخصیت رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک سچے مجاہد اسلام کے طور پر دیکھتے ہیں اور باقی ایک قاتل اور دہشت گرد کے روپ میں۔ کیا اس کی موت شہادت ہے یا ہلاکت؟ مولانا اپنے کو اس کی موت سے سبق سیکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔)
مولانا تک یہ خبر پہنچی ہے کہ بہت سے ممالک کو مطلوب اسامہ بن لادن مارا گیا ہے۔ ہر عمل کا اختتام ہوتا ہے اور اسامہ کے اعمال اپنے اختتام کو پہنچے۔یہ سب اللہ کی رضا سے ہوتا ہے تاکہ ایک ایک کر کے اس دنیا سے ظالم ختم ہو جائیں اور پھر انسانیت کے حقیقی مسیحا امام مہدی (رحمتہ اللہ علیہ) نازل ہوں۔
اسامہ برائی کا نمائندہ تھا۔ وہ انسانیت کے خلاف گھناونے جرائم میں ملوث تھا۔ اس نے کچھ ایسے ہولناک کام کئے جن کے نتائج سے وہ بالکل بے خبر تھا۔اللہ نے ہم سے فتح کا وعدہ کیا ہے چاہے وہ دیر سے ہی آئے۔ اب دس سال بعد اللہ نے برائی کی جڑ کو ختم کردیا ہے، فتنے کا سر کچل دیا ہے، اسامہ برائیوں کی اس فہرست میں سب سے اوپر تھا۔ اس ظالم کی موت سے بہت سے لوگوں کو سکھ اور چین ملا ہے۔
ظالم کون ہے؟ ظالم وہ ہے جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے! اور اس طرح کے ظالموں کو اب اس دنیا میں مزید چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ چاہے ان ظالموں کی مدد کیلئے کروڑوں بدکار ہوں اللہ ان سب کو ہٹا دے گا۔( مولانا کی ایک پرانی صحبت ملاحظہ فرمائیے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ جب امام مہدی رحمتہ اللہ علیہ ظاہر ہوں گے تو صرف جنتی لوگ باقی بچیں گے۔) شیخ اعظم عبدللہ نے کہا تھا، ” ظلم زیادہ دیر نہیں رہتا کیونکہ اگر یہ رہے تو ہر چیز تباہ کردے۔“
پورے عرب میں جو تبدیلی کی لہر دوڑ رہی ہے یہ ان قائدین سے لوگوں کی ذاتی رنجش نہیں—ہرگز نہیں، یہ تو ان کے کردار کے خلاف ہے—یعنی آمر اور ظالم— یہ آج کے زمانے کے نمرود اور فرعون ہیں۔ یہ لہر مغرب سے مشرق کی طرف پھیل رہی ہے، یہ ‘ظلم کے دور‘ کے خاتمے کی نشانی ہے جس کی پیشین گوئی رسول اللہ نے کر دی تھی کہ ‘سلاطین کے دور‘ کے بعد ‘آمروں کا دور‘ آئے گا۔
یہ اللہ کی ذات ہے جس نے ان کے دلوں میں ظالموں کے خلاف بغاوت بھر دی ہے، وہی ان کو نا انصافی کے خلاف بولنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔انسانیت کے دلوں کو اس طرح سے بدل دیا گیا ہے کہ وہ اب جبر برداشت نہیں کریں گے، ان کا یہی پیغام ہے۔،“ہم آمروں کے دور سے تنگ آگئے ہیں!” حقیقت میں وہ بھوک یا زندگی میں موجود پابندیوں کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے، بلکہ لوگ ان ظالموں اور آمروں سے دلی طور پر تنگ آچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اتنے ذیادہ لوگ کھلے عام سڑکوں پر مظاہرہ کررہے ہیں حالانکہ موت کا خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔
اس دور ظلمت کے بعد پیغمبر کے خاندان کا ایک فرد آئے گا۔ پاک پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ،“آل محمد کا ایک فرد ظاہر ہوگا ، وہ اللہ کے حکم پر عمل کرے گا، اور دنیا میں ہر طرف انصاف ہوگا جیسا کہ اس سے پہلے ہر طرف ناانصافی تھی۔ وہ عظمت، ایمان، علم، خلوص، انصاف، اور الہامی قوتوں کا حامل ہوگا۔وہ مشرق سے مغرب تک ان تمام لوگوں کا صفایا کردے گا جن کی زندگی کا مقصد لوگوں کو دھوکا دینا اور لوگوں کو آپس میں لڑانا اور لوگوں پر تشدد کرنا ہوگا۔“
مولانا نے فرمایا کہ کوئی بھی رحمدل انسان ان ظالموں ( جیسا کہ اسامہ ) کے اعمال کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی اس جبر اور نا انصافی کو جو انہوں نے دنیا میں برپا کی۔ قرآن کی ان آیات پر غور کیجیے۔
وَإِذَا ٱلۡمَوۡءُ ۥدَةُ سُٮِٕلَتۡ . بِأَىِّ ذَنۢبٍ۬ قُتِلَتۡ
جب شیر خوار بچیوں کو زندہ دفن کیا گیا تو ان سے پوچھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (8) انہیں کس جرم میں مارا گیا، (9) (سورہ التوقیر 9_8: 81)
اسلام کے ظہور سے پہلے کے عرب میں، دور جہالت کے دوران شیر خوار بچیوں کو نحوست کی علامت سمجھ کر زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ مندرجہ بالا آیات میں اللھ تعالی فرماتے ہیں کہ یوم محشر ان والدین سے سوال پوچھا جائے گا کہ ان بچیوں کا کیا گناہ تھا۔ اس طرح اس آیت کی روشنی میں بن لادن جیسے ظالم قائدین جنہوں نے بے بس اور معصوم انسانوں پر بم برسائے ( جبکہ ان کے پاس اپنے دفاع کا کوئی ذریعہ بھی نہ تھا) کو یوم محشر اٹھایا جائے گا اور اللہ سوال پوچھے گا کہ انہوں نے طاقت کا غلط استعمال کیوں کیا؟ اللہ ان سے پوچھے گا ” تم نے کس وجہ یا کس گناہ کی پاداش میں اللہ کے بندوں کو قتل کیا؟“
اسلام کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور اسامہ جیسے لوگ جو دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہں۔ ان لوگوں کا کوئی ایمان نہیں۔ کوئی بھی جو حکم الہی کے خلاف چلتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ انہیں مومن کہلانے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اللہ کے ہاں ان کا اندراج ظالموں کی فہرست میں ہے۔
مولانا نے دعا کی۔ ” اے ہمارے رب! ہمیں ایک پل کے لیے بھی ہمارپ نفس کے رحم وکرم پر مت چھوڑیو،” مولانا نے فرمایا کہ ان کا مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں ( کہ وہ اپنے نفس کے تابع نہیں ہیں) بلکہ انہوں نے یہ دعا اس لیے کی تاکہ ہم سب جان لیں کہ ظالم، ظالم کیوں بنتا ہے ( وہ اپنے نفس کے تابع ہوتے ہیں ) اور یہ کہ ہم ( دور آمریت ) میں رہ رہے ہیں۔ اور اس لیے تاکہ ہم محتاط رہیں۔
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ خُذُواْ حِذۡرَڪُمۡ
اے ایمان والو! اپنی اپنی حفاظت کرو (سورہ النسا: 4:71 )
مولانا نے ہم سب کو خبردار کیا ” ظالوں کے ظلم سے اپنے آپ کو بچائیے ( ظالم وہ ہیں جو اپنے نفس کے پیروکار ہیں)۔ اللہ ہم سب کو نفس جیسی برائی سے بچاے کیونکہ نفس ہمیشہ انسان کو غلط راستہ دکھاتا اور برائی پر اکساتا ہے۔“
نفس کبھی عاجزی نہیں سکھاتا، یہ ہمیشہ غرور پیدا کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں ایسا ہرگز نہیں کہنا چاہیے، ” ہم ایرانی ہیں، ہم پاکستانی ہیں، ہم عرب ہیں۔” بلکہ ہمیں کہنا چاہیے، ” ہم مسلمان ہیں۔ ہمارے سر رضائے خدا میں خم ہیں۔” نفس کو ایک طرف رکھ کر خدا کی اطاعت میں انسان کی بڑائی ہے، کسی قبیلے یا گروہ سے تعلق میں عزت نہیں بلکہ عزت مزہب میں ہے نسل میں نہیں۔
اللہ فرماتے ہیں ۔
وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ
تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو
ہم سب کو دین کی الوہی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لینا چاہیے اور نسلوں، قبیلوں اور قوموں میں تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ عرب نام کی کوئی قوم نہں ہے، صرف پیغبر پاک محمد کی قوم ہے۔ اتحاد اس صورت ممکن ہے اگر ہم عاجزی اختیار کریں اور اپنے نفس کی نفی کریں۔ انسان کا نفس کبھی بھی دوسروں کو اپنے برابر یا برتر تسلیم نہیں کرتی۔
ان جابر آمروں کو ختم کرنے کے لیے اللہ کو فرشتوں کی فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں، اسے اپنے حکم کی تعمیل کے لیے چھوٹے چھوٹے وائرس ہی کافی ہیں کیونکہ وائرس اللہ کی ناقابل شکست فوج ہے۔صرف چند گھنٹوں میں لاکھوں ظالموں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے۔عراق میں بصرہ میں ایک دفعہ ایک وائرس کے پھیلنے سے پہلے دن 70000 لوگ جاں بحق ہوئے، دوسرے دن اس سے 72000 شہری مارے گئے، تیسرے دن 75000 لوگ مزید ہلاک ہو گئے اور چوتھے دن شہر میں کوئی موجود نہیں تھا۔ اس لیے ان ظالموں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے خلاف ان کے ٹینک، میزائل اور لڑاکا طیارے کسی کام نہیں آئیں گے۔
الفاتح
تبصرہ:
ہر کام کی ایک حد ہوتی ہے۔ ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ نہیں رہ سکتا کیونکہ اس سے مصیبتوں اور لوگوں کے غصے میں اضافہ ہوتا ہے۔
رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ کس طرح دورحق یعنی خلافت سے بادشاہت اور بادشاہت سے سلطانیت اور پھر آمریت میں بدل جائے گا۔ اور اس کے بعد آل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے امام لعصر، صاحب الزماں آئے گا اور دنیا میں امن قائم کر دے گا۔ہم اب اس دور کو دیکھ رہے ہیں جب آمریت کا دور ختم ہو جائے گا اور امام مہدی رضی اللہ عنہ کا دور شروع ہو گا۔
ہمیں اپنے اعمال کے نتائج کی اہمیت پر نظر ڈالنی چاہیے۔ اسامہ نے دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ مغرب سے لینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے اعمال کے نتیجے میں زیادہ قتل عام، زیادہ ہلاکتیں، زیادہ جنگ وجدل اور پہلے سے زیادہ مصیبتوں اور اموات کا شکار ہوئے۔ اس کا مقصد مدد کرنا تھا لیکن خدا کی ہدایت کے بغیر اس نے صرف اپنے جذبات اور غصے کو اپنا رہنما بنایا اور اس طرح اس کی بے مقصد سرکشی سے مسلمان مزید مشکالات میں پھنس گئے۔ لکیر کے فقیر افراد نے اس کی پیروی کی اور اس طرح خود کش حملوں اور بے وجہ کی قتل وغارت شروع ہو گئی، آج ایک جہاز میں سوار ہوتے وقت، ہمیں ٹٹولا جاتاہے، ہماری تصاویر بنائی جاتی ہیں اور ہمیں بے وجہ ستایا جاتا ہے، ہمیں اپنا دستار، جوتے اور کمر بند بھی اتارنا پڑتا ہے۔ ہمارے بیگوں کی تلاشی لی جاتی ہے اور انہیں سکین کیا جاتا ہے، ہمارے مشروبات تک ضائع کر دیے جاتے ہیں اور ہر معمولی سی چیز جو ہتھیار سے مشابہ ہو وہ لے لی جاتی ہے۔ اس کے اعمال کی بدولت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اسلام ظلم، انتقام ، سرکشی، نفرت، قتل وغارت، تکالیف اور دہشت کا نام ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ حقیقت میں اسلام کا پیغام، محبت کا منبع اور امن وسکون کا ذریعہ ہے۔ ایک گمراہ شخص نے اس کا چہرہ اتنا مسخ کر دیا کہ اب خود مسلمانوں کے لیے اسے پہچاننا مشکل ہے۔
جو کوئی اپنے نفس کے پچھے چلتا ہے وہ ظالم ہے اور ایک ظالم کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب اسے اپنے نفس کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ہم سب یا تو اپنے نفس کے با پھر اپنے رب کے غلام ہیں۔ ان میں سے انتخاب ہمیں کرنا ہے۔ وہ جو اپنے نفس کی غلامی اختیار کرتے ہیں وہ اپنی عزت اور زندگی کا مقصد کھوچکے ہیں جیسا کہ اسامہ نے کھو دیا تھا۔
مولانا نے قرآن کی آیات نقل کرتے ہوئے ہمیں احتیاط برتنے کی بھی تلقین کی۔احتیاط کس کے خلاف؟ احتیاط اپنے نفس کے خلاف! ہمیں یہ پہچاننا چاہیے کہ ہمارا نفس ایک مجرم ہے اور ہمیں اس کی اصلاح شروع کرنی چاہیے۔
خودی کو زیر کرنا اور اللہ تک پہنچنا۔۔۔۔۔ حقیقت میں تصوف اور طریقت کے سفر کا یہی خلاصہ ہے۔ ہمارے سلطان العارفین، شیخ اعظم سیدنا ابویزید الابسطامی کی اللہ تعالی سے یہ حیران کن گفتگو پڑھیے۔
شیخ اعظم: اے میرے رب! میں آپ تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟
اللہ نے فرمایا: ” ابو یزید، میں تم سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہوں، اپنے نفس کو مار دو اور مجھ تک پہنچ جاؤ۔“
شیخ اعظم: “اے میرے رب! آپ تک پہنچنے کا فاصلہ کتنا ہے ؟“
اللہ نے فرمایا، ” ابو یزید، تمہارا نفس جتنی بڑا ہے، مجھ تک پہنچنے کا فاصلہ اتنا ہی ہے۔“
اب اسامہ بن لادن کے نفس کو ہی دیکھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اسلام کا گہرا مطالعہ کیا، مسلمانوں جیسا لباس پہنتا تھا، ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتا تھا، تسبیح پاس رکھتا تھا اور قرآن و حدیث سے حوالے دیتا تھا۔ بظاہر وہ ایک مومن دکھائی دیتا تھا، تو پھر مسلئہ کہاں تھا؟ اسامہ نے جو بھیانک غلطی کی وہ یہ تھی، اس نے کبھی بھی اپنے نفس کی اصلاح کے لیے کسی کی بیعت نہیں کی۔ جس کے پاس ہدایت کے لیے شیخ نہیں ہوتا اس کا رہبر شیطان ہوتا ہے ( حدیث )
مذہب کی اصل روح اللہ تعالی کی غلامی ہے۔ اس کا نعرہ ہے لا الہ اللہ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ نفس کا مذہب ہے دوسروں کو غلام بنانا، اس کا نعرہ ہے لا الہ الا ان یعنی میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب کوئی اپنے نفس کو زیر نہ کر سکے تو یہ اس کے دل پر قابض ہو جاتا ہے اور ہمارے تمام اعمال اور علم برائی کے تابع ہو جاتے ہیں۔
تمام پیغبر انسان کو یہی سکھاتے آئے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، جبکہ نفس ہمیں سکھاتا ہے کہ میں بہت خاص ہوں۔ میں سب سے اہم ہوں۔ میں بہت عظیم ہوں۔ ہر چیز کے متعلق میری اپنی رائے ہے، میری اپنی بات ہے۔ میرے اپنے محسوسات ہیں۔ میں ہمیشہ صیحح ہوتا ہوں۔۔۔۔ نہ دنیا صحیح اور نہ ہی خدا۔۔۔ میں سب سے عالی مرتبہ ہوں۔” یہ آخری فقرہ فرعون نے کہا تھا۔ مولانا فرماتے ہیں۔ ہم سب میں ایک ایک فرعون ہے۔ اگر ہم اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دیں گے تو یہ بڑھتے بڑھتے فرعون بن جائے گا۔ نفس اپنے آپ کو رب سے علیحدہ اور آزاد سمجھتا ہے۔ یہ حقیقی رب کے علاوہ اپنے آپ کو رب گردانتا ہے،یہ خدا کا شریک بن جاتا ہے۔ یہ وہ بت ہے جسے ہمیں توڑ دینا چاہیے بالکل اس طرح جس طرح محمد نے کعبے کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا، وہ جو اپنے آپ کو خدا کا شریک بناتے ہیں انہیں توڑ دیا جائے گا اور ہٹا دیا جائے گا۔
جہاد اکبر کا اصل مقصد باغی نفس کو زیر کرنا ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ کیا گیا تو ہمارا تمام علم اور ہمارے تمام اعمال نفس کے ساتھ کیے جائیں کے یا نفس کی خاطر یعنی وہ تمام بری نیت کے ساتھ ہوں گے ان میں خلوص اور سچائی نہں ہو گی۔ ابلیس اس کی ایک بہترین مثال ہے، اسے جنت سے علم یا عبادت کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی فرمانبرداری سے انکار کی بنا پر نکالا گیا تھا، اس نے خدا کی اطاعت سے انکار نفس کی بناء پر کیا تھا۔ ابلیس نے جنوں کے سردار کے طور پر 40000 سال اللہ تعالی کی عبادت کی تھی، مزید 40000 </spa
You must be logged in to post a comment.