(تیرہ یادگار نصیحتیں (2

مولانا شیخ ناظم کی یومیہ صحبت

 

اعوذ بااللہ حمن االشیطان الرجیم

 

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

 

السلام علیکم ورحمتہ والبرکتہ

 

(یہ ابواب ان خاموش نصیحتوں کا چھوٹا سا حصہ ہیں جو مولانا نے مختلف مہمانوں سے گفتگو کے دوران فرمائیں تاکہ ہم صحت مند اور خوش گوار زندگی گزار سکیں۔ پہلا حصہ شروعاتی چار ابواب پر مشتمل ہے۔)

 

باب5 :غریبوں کا خیال رکھیں۔

٭     غریب لوگ کمزور ہوتے ہیں اُنہیں زندگی میں آگے بڑھنے کا موقع دیں۔ اُن کی مدد کریں۔ کئی زمانوں سے حکومتیں اُنہیں نظر اندازکرتی رہی ہیں۔ مسلمانوں کو انفرادی طور پر محروم لوگوں کی مدد کرنا شروع کرنا چاہیے۔

 

تبصرہ

٭     مولانا نے ایک پرانی صحبت میں کہا تھا کہ ہر حکومت کا خاتمہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ غریبوں کا خیال نہیں رکھتیں۔ وہ خود دولت جمع کر لیتی ہیں اور شہریوں کو بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں اور ہر بغاوت کا آغاز ایسے ہی ہوتا ہے۔

٭     غریبوں کی مدد کے بہت سے طریقے ہیں۔ سوپ کچن شروع کر کے انہیں خوراک دینا اور بنیادی ضروریات فراہم کرنا چند طریقے ہیں۔ لیکن طویل المدتی منصوبے جو چھوٹے چھوٹے قرضوں کے ذریعے اُنہیں اُن کے پیروں پر کھڑا کر دیں، زیادہ بہتر طریقے ہیں۔ تعمیراتی منصوبے مثلاً صاف پانی اور بجلی کی فراہمی پورے معاشرے کو بدل سکتے ہیں۔ مولانا کئی سالوں سے افریقہ میں کنویں کی کھدائی کے لیے چندہ دے رہے ہیں۔ مقامی سطح پر تعلیمی شرح میں اضافے اور مزدور قوت میں اضافے کے لیے اساتذہ کے لیے چندہ دینا بھی ایک اچھا طریقہ ہے۔

٭     کمبوڈیا (کمپونگ جام) کے ایک گاؤں میں ایسے ہی ایک منصوبے میں صرف جنریٹر کی فراہمی سے مسجدوں اور سکولوں کو رات دیر تک کھلا رکھنا مکمن ہو گیا اس لیے اب وہاں عشا کی نماز کے بعد بھی مذہبی کلاسوں کا انعقاد ممکن ہے۔ ہم وہاں کے سکولو ںمیں انگلش کو بطور مصمون رائج کرنے میں کامیاب رہے اور اس طرح ہم پڑھی لکھی اور مہارت یافتہ مزدور قوت کی پیداوار کا عمل شروع کر دیا۔

٭     اس طرح غریبوں کی مدد کے بہت سے طریقے ہیں۔ یہ کام خود کرنا بہتر ہے اور نام نہاد غیر منافع بخش تنظیموں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔  اگر آپ اس طرح کے منصوبوں میں دلچسپی رکھتے ہیں توہمیں اپنے تجربات کے آپ کے ساتھ تبادلے پر خوشی ہو گی۔ ہم 1990سے اس طرح کے منصوبوں پر انڈونیشیا اور پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور ابھی حال ہی میں 2009 میں افریقہ (پیرا لیون) اور سری لنکا (2010) میں کیا۔ مولانا کی اجازت اور برکت سے اس سال کہیں زیادہ کام کرنے کا ارادہ ہے۔

باب6 : متحرک روحانی خدمات

٭     ایسے ممالک جہاں نقشبندی گروہوں کے پاس درگاہ / زاویہ نہیں ہے اور جو اور زیادہ پیروکاروں کو مائل کرنا چاہتے ہیں اُنہیں ہفتے میں ایک بار دو گھنٹے کے لیے کوئی پبلک ہال کرائے پر لینا چاہیے اور اعلان کر دینا چاہیے کہ یہ روحانی مرکز یا طبی مرکز ہے۔ حاضرین کیلئے مفت مشروب (کافی، چائے) تیار کیجئے اور دورانیے کا آغاز حاضرین کے روحانیت سے متعلق سوالوں سے کیجئے۔ یہ دورانیہ لوگوں کے سوالات پوچھنے کے لیے کھلا ہونا چاہیے تاکہ لوگ وجود کے معنی و مفہوم کو سمجھ سکیں۔

٭     پھر ایک مہمان نے مولانا سے پوچھا ، ”مولانا آپ بھی (ا ن روحانی اجتماعوں) میں تشریف لائیے، انشاءاللہ، آپ انشاءاللہ میرے ساتھ آئیے۔ ہمیشہ میرا ساتھ دیجئے“۔ مولانا نے جواب میں فرمایا، ”اگر آپ مجھے بلائیں گے تو میں ضرور آؤں گا“۔

تبصرہ:

پہلے ایک صحبت میںمولانا نے فرمایا تھا، ”جو مرید میرے پاس نہیں آ سکتے، میں اُن کے پاس جاؤں گا“۔

٭     حقیقت الحقانی میں مولانا فرماتے ہیں، ”مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ سب پر یہ واضح کر دوں کہ جب آپ میں سے کوئی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے یا مشکل حالات میں ہو وہ فوراً میرے دل سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اگر وہ صرف میرے بارے میں سوچے گا تو فوراً میرے سے رابطہ بن جائے گا۔ اُنہیں صرف مجھے یاد کرنا ہو گا اور پھرمیں اُن کی نظروں کی سامنے ہوں گا۔ یہ تعلق آپ کو تقویت دے گا اور آپ مشکل حالات سے محفوظ رہیں گے۔ یہ میری روحانی طاقت نہیں بلکہ میں ایک لڑی میں پرویا ہوا ہوں، ایک لڑی جو صوفیا کے ذریعے ہمارے رب سے جڑی ہوئی ہے۔ میں اس لڑی کی آخری گرہ ہوں جو آپ تک پہنچتی ہے۔ یہ ایک پلگ کی طرح ہے جسے آپ بجلی سے جوڑ سکتے ہیں“۔

٭     اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے، ”جب کوئی مرید شیخ ناظم کو یہ کہتے ہوئے پکارتا ہے، ”مدد یا سیدی“ تو مولانا فوراً اُس کے دل پر ایک الہامی نظر ڈالتے ہیں اور اُس کا دل نور سے روشن ہو جاتا ہے“ یقین کرو۔

باب :7 رات کو باہرمت جاؤ

٭     مولانا نے مہمانوں کو نصیحت کی کہ اس دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے پیغمبر کی سنت پر عمل کریں۔ اُنہوں نے اُنہیں یاددہانی کروائی کہ مغرب کے وقت اپنے بچوں کو گھروں میں رکھیں کیونکہ اُس وقت شیطان اپنی پوری طاقت سے انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم یوم محشر جانے والے ہیں اس لیے وہ انسانیت کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جہنم کی اگ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔

٭     شیطان رات کے وقت بہت متحرک ہوتا ہے اس لیے رسول اللہ نے امت کو یہ وصیت کی، ”جب رات ہو جاتی ہے تو اپنے بچوں کو گھر سے نہ نکلنے دو کیونکہ رات کو شیاطین باہر نکلتے ہیں“۔

تبصرہ:

مولانا نے اس کے متعلق پچھلی دو صحبتوں میں بھی گفتگو فرمائی تھی ایک 7 اپریل کو اور دوسری 11 اپریل کو

٭     شیطان جانتا ہے کہ بچے معصوم اور آسان شکار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کی شروعات میں ہوتے ہیں اور اُن میں حرص اور خواہش بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ آسانی سے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

باب8 :بڑے شہروں سے اجتناب کریں۔

٭     مولانا فرماتے ہیں کہ بڑے شہروں میں رہنا خطرناک ہے۔ مہمانوں کو نصیحت کی کہ وہ دیہات کے محفوظ ماحول میں چلے جائیں۔ پہلے بڑے شہروں میں حادثے رونما ہوں گے، بہت سی اموات ہوں گی اور عمارتوں کو بہت نقصان ہو گا۔ مولانا نے اپنے لیے دعا کی یاددہانی کروائی اور نیک اعمال کی نصیحت کی۔

تبصرہ:

مولانا نے اس موضوع پر پوری ایک صحبت وقف کی تھی۔

باب9 :اپنے بچوں کو عملی کام سکھائیں

مولانا نے اپنے مہمانوں کو نصیحت کی کہ بچوں کو عملی کام سکھائیں۔ ایسے کام جو بعد میں اُن کو اپنے خاندان کی کفالت میں مدد کریں مثلاً بڑھئی کا کام۔ بہت سی یونیورسٹیاں کاغذی علم کے حامل افراد پیدا کر رہی ہیں جو بعدمیں ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

٭     اس لیے ایسی مہارتیں سیکھیں جو ہاتھ سے کام کرنے والی ہوں بجائے اس کے کہ کاغذی علم سیکھیں جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہ ہو۔ ایک ڈگری اگر جاب نہ دلا سکے تو یہ کاغذ کا بے کار ٹکڑا ہے۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے عملی کام سکھائیں۔ ایسے لوگ کبھی مار نہیں کھائیں گے کیونکہ معاشرے کو ہمیشہ ان کی ضرورت رہتی ہے۔

تبصرہ:

اس پر بھی مولانا نے ایک پچھلی صحبت میں تفصیل سے بحث کی تھی۔

باب10 :اپنے بیٹوں کی شادیاں کر دیں

مولانا نے فرمایا کہ وہ مہمانوں کے لیے وصیت چھوڑے جا رہے ہیں کہ جب بیٹے جوان ہو جائیں تو اُن کی شادی کر دینی چاہیے کیونکہ یہ بہت نازک عمر ہوتی ہے اور جوان لڑکوں کو بنا شادی کے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

٭     شیطان نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں عورتوں کو بھرتی کیا ہے تاکہ مردوں کو اپنی طر ف مائل کر کے زنا اور گناہ کی طرف راغب کریں۔ شیطان ان کو استعمال کر کے نوجوان لڑکوں کوتباہ کر رہا ہے۔ مولانا نے نصیحت کی کہ ایسی زندگی گزاریں جس سے کسی کو نقصان نہ ہو۔

تبصرہ:

٭     آزادانہ میل جول کی وجہ سے بغیر شادی کے جنسی اختلاط آج شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آج کے معاشرے میں آزاد ماحول کی وجہ سے اس کے بارے میں لوگوں کا رویہ روشن خیالی پر مبنی ہے اور مرد اور عورتیں بغیر شادی کے جنسی اختلاط میں مبتلا ہو کے ایک دوسرے کے اخلاق اور عزت خراب کر رہے ہیں۔ ایک پچھلی صحبت میں اس موضوع پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی۔

باب :11 گھروں میں روزانہ کا معمول

٭     مولانا نے نصیحت کی کہ “ربن اللہ، حسبن اللہ” کی تلاوت کریں اور وہ آپ کی حفاظت کریں گے“

٭     بچوں کے لیے مسجد میں جانا ضروری نہیں تاہم انہیں گھر میں دن میں دو رکوة نماز ادا کرنا چاہیے۔

باب :12 عورتوں کے متعلق

٭     مولانا نے مہمانوں کو نصیحت کی کہ وہ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو گھرمیں بغیر مرد کے اکیلا نہ چھوڑیں۔ ایسا خطرناک ہو گا۔

٭     بغیر کسی کام کے عورتوں کا گھر سے نکلنا بہترنہیں۔ اگر انہیں باہر سے کچھ خریدنا ہو تو بہترہے ان کے لیے یہ کام مرد کریں۔ مولانا نے فرمایا، ”اگر آپ اُنہیں باہر بھیجیں گے تو شاید وہ بحفاظت واپس نہ آ سکیں“۔

٭     گھر کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کو ہر صورت یہ خبر رکھنی چاہیے کہ کون کدھر جا رہا ہے۔ آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

باب:13اپنے علاقے میں بیت المال قائم کریں۔

٭     یہ مشترکہ چندہ ہو گا جس میں سے اراکین بغیر سود کے قرض حاصل کر سکیں گے۔ یہ ایک اسلامی اشتراک ہو گا جس میں ہر کسی کو اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالنا چاہیے۔ ہر گھر میں ”چندہ خانہ“ ہونا چاہیے جس میں گھر کے افراد روزانہ چندہ ڈالیں اور ہفتے میں ایک بار اسے خالی کر کے بیت المال کو رقم دے دی جائے۔

جیسے جیسے رقم بڑھے گی اللہ اس میں برکت ڈالے گا اور یہ سب لوگوں کے لیے ایک نعمت ہو گی۔ یہ پوشیدہ طور پر کسی کی مدد یا بغیر سود کے قرض، بنیادی ضروریات کے لیے دی جا سکتی ہے جیسا کہ مائیکرو فنانس منصوبوں میں لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے چھوٹے کاروبار کے لیے رقم دی جاتی ہے۔

تبصرہ:

بیت المال کا لفظی ترجمہ دولت کا گھر بنتا ہے۔ حقیقت میں یہ پورے معاشرے کا مرکزی بچت کھاتہ ہوتا ہے جس میں ہر کوئی اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ ڈالتا ہے اور یہ اُس مخصوص گروہ کے مستحق اراکین کی مد دکے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

٭     ایسے اراکین بھی ہو سکتے ہیں جو بیماری یا حادثے بیروزگاری یا کسی اور غیر متوقع صورتحال سے متاثر ہوں۔ اس لیے چندے میں سے امداد یا بغیر سود قرض ہر ضرورت مند کو دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سماجی بہبود کے منصوبے جیسا ہے لیکن یہ غلط استعمال کے لیے نہیں جیسا کہ آج مغرب میں ہو رہا ہے۔

الفتح

 

This entry was posted in 2011 @ur, صحبت and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.